چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی کی اعلیٰ کمان نے اگرچہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات پر رد عمل کا اظہار کیا ہے لیکن نگراں وزیراعظم اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جن کے ہاتھ میں اعلیٰ ادارے کی کمان ہے۔ ادارہ وزیراعظم کے انتظامی کنٹرول میں ہے لیکن موجودہ نگراں وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک نے خود کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس صدیقی کے بیان سے پیدا ہونے والے تنازع سے دور رکھا ہوا ہے۔ سرکاری ذریعے کے مطابق یہ بہتر ہوتا کہ ناصر الملک، ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اس معاملے کی انکوائری کا حکم دیتے۔ جسٹس صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ ایجنسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے رابطہ کرکے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی تھی کہ نواز شریف اور مریم نواز الیکشن تک جیل میں رہیں۔ انہوں نے ایجنسی پر مکمل طور پر عدالتی کارروائیوں میں تبدیلیاں کرنے کا بھی الزام عائد کیا تھا۔ یہ الزامات ایسی ایجنسی پر عائد کیے گئے جو براہِ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرتی ہے، تاہم وزیراعظم میڈیا کی زینت بننے والی شہ سرخیوں اور اس تنازع پر لاتعلق نظر آتے ہیں۔ عدالتی امور میں ایجنسی کی مداخلت کے حوالے سے جسٹس صدیقی کی جانب سے عدالتی فیصلے میں اس بات کی نشاندہی کرنے اور اگلے ہی دن راولپنڈی بار سے خطاب کے چند روز بعد چیف جسٹس پاکستان اور ساتھ ہی پاک فوج نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی بات پر رد عمل ظاہر کیا۔ چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا جبکہ فوج نے اپنے ترجمان کےذریعے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں۔ الزامات سنگین تھے اور ریاستی اداروں کو ملوث بتایا گیا تھا جس کی وجہ سے فوج کو مطالبہ کرنا پڑا کہ ریاستی اداروں کے احترام اور ساکھ کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ مناسب کارروائی شروع کریں تاکہ الزامات کی سچائی معلوم کی جا سکے اور ضروری کارروائی کی جا سکے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق، پیر کے روز چیف جسٹس پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا ہے کہ وہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ان پر عائد کردہ الزامات پر موقف پیش کریں۔ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے پاس کوئی مواد / شواہد موجود ہیں تو وہ بھی فراہم کریں۔ جسٹس صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ ایجنسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور کاسی سے رابطہ کیا اور کہا ’’ہم نہیں چاہتے کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی الیکشن تک [جیل سے] باہر آئیں، [شریف فیملی کی اپیل کی سماعت کرنے والے] اس بینچ میں شوکت عزیز صدیقی کو شامل نہ کریں۔‘‘ جسٹس صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس محمد انور کاسی نے ایجنسی والوں کو بتایا کہ ان کی مرضی کا بینچ تشکیل دیدیا جائے گا۔ اگرچہ چیف جسٹس نے اس معاملے پر کسی حد تک انکوائری شروع کر دی ہے لیکن تفصیلی تحقیقات کیلئے کوئی طاقتور اور اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا گیا۔ قانون کے تحت، حکومت حاضر سروس یا پھر ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دے سکتی ہے۔ حاضر سروس جج کی صورت میں حکومت کو عدلیہ سے جج کی نامزدگی کی درخواست کرنا ہوگی۔ چیف جسٹس نے پیر کو یقین دہانی کرائی کہ جسٹس صدیقی کو انصاف ملے گا۔ جسٹس صدیقی نے اتوار کو چیف جسٹس پاکستان کو خط بھیجا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ اس معاملے پر کسی ایسے جج کے ماتحت کمیشن بنایا جائے جس نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ الزامات ثابت کرنے میں ناکامی کی صورت میں وہ کوئی بھی سزا بھگتنے کو تیار ہیں تاہم انہوں نے یقین دہانی مانگی کہ عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے والے افسران کو بھی سزا دی جائے گی۔
خبر: جنگ